نئی محفل کا پیک ۔۔۔ پرانی محفل کا دھواں
سب سے پہلے پر انے زمانے کی اس محفل کا قصہ ملاحظہ کیجئے۔ حقہ اس کا لازمی حصہ تھا۔ دو چارپائیوں کے درمیان بڑا سا حقہ رکھا جاتا تھا ، اس کے نچلے حصے میں مٹی کی صرا حی ہوتی تھی، بیچ کے حصے میں بڑی پائپ لگی رہتی تھی۔ اوپر چلم ہوتی تھی جس میں کوئلہ رکھا جاتا تھا ۔ یہ محفل سجانے سے پہلے حقہ کے اہتمام کیلئے ایک قسم کی دوڑ بھاگ تھی۔ گھر کے مٹی کے چولہے سے کوئلہ آتا تھا۔ نوجوان بیٹھک کا حصہ نہیں ہوتے تھے لیکن وہ حقہ بنانے میں بڑوں کی مدد کرتے تھے ۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ کوئلہ لاتے تھے۔ بتاتے ہیں کہ محفل سجنے سے پہلے وہاں جھاڑو دیا جاتا تھا جس کی ذمہ داری گھر کے چھوٹے بچوں پر ہوتی تھی۔ وہ دوڑ دوڑ کر یہ سب بہت شوق سے کرتے تھے۔ اس کام کے عوض کبھی کبھی یا روزانہ بڑے بوڑھے ننھی ہتھیلیوں پر کچھ سکے رکھ دیتے تھے، بچے اس کا انتظار کرتے تھے ۔چھو ٹے بڑے سب کی محنت سے یہ محفل سج جاتی تھی ۔ پھر ایک ایک کر کے بڑے بوڑھے آ تے تھے ، چارپائی پربیٹھ جا تے تھے۔ کچھ اس پر لیٹ بھی لیتے۔ حقہ دہکنے کے بعد سب اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک ایک کر کے سب حقہ گڑگڑاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دلچسپ باتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا ۔ اس محفل کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا تھا۔ کوئی سرا نہیں تھا، کہیں سے بھی بحث چھڑ جاتی تھی۔ ان میں کوئی ربط نہیں ہوتا تھا۔ بیل بھینس کی بات ہوتی تھی ۔ ڈاکوؤں کا ذکر چھڑتا تھا تو سب ایک ایک کرکے ڈاکوؤں کے قصے سنانے لگتےتھے ۔ پہلوانی پرگفتگو ہوتی تھی تو ایک کی بات ختم ہوتے ہی دوسرا کسی اور نامور پہلو ان کا قصہ لے کر بیٹھ جاتا تھا۔ بیل گائے ، بھینس اور مچھلی کا شکار اس محفل کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ سیاست کا نمبر شاذ وناد ر ہی آتاتھا۔
اب تھوڑی نئی اورتھوڑی پرانی محفل بھی دیکھئے ، اس محفل کا حقہ ناریل کے خول کا ہوتاتھا ۔ یہ محفل نیم کے درخت کے نیچے بھی ہوتی تھی۔ ایک چارپائی پر کئی کئی افراد بیٹھتے تھے۔ حقہ کھینچنے کے بعد چھیڑ چھاڑ اور مذاق سب ہوتا تھا، قہقہے گونجتے تھے ۔ پوری محفل میں دھواں تیر تا تھا۔ اس محفل میں تھوڑی سیاست آگئی تھی۔بی بی سی اور دوسرے ریڈیو کی نشریات سننے والے باخبر مانے جاتے تھے، دنیا جہان کی خبریں بتاتے تھے۔ نوجوانوں کو ٹوکتے تھے۔ فلموں پر باتیں ہوتی تھیں۔ اچھی اداکاری پر داد دی جاتی تھی۔ امیتابھ بچن کا فین اپنے اداکار کی تعریف کرتا تھا۔ ہیمامالنی کے مداح اس کیلئے لڑتے تھے۔ اس میں شاہ رخ ، سلمان، عامر ، مادھوری اور تبو بھی آتے تھےمگر ان کے آتے ہی بڑے بوڑھے منہ بنالیتے اور لڑکے انہیں پرانے ہیر و کا فین کہتے تھے۔ محمدر فیع کے گانوں کے مداح بیٹھے بیٹھے گنگناتے بھی تھے۔ اس محفل میں ہندوستان کے بڑے شہر ممبئی ،کلکتہ ، دہلی اور سورت وغیرہ کی باتیں کہانیوں کی طرح بیان کی جاتی تھیں۔ کچھ بڑے بوڑھے محفل کی جان اسلئے تھے کہ ان کی باتیں بہت دلچسپ ہوتی تھیں ، ممبئی کی زبان میں وہ لمبی لمبی چھوڑتے تھے۔ اس محفل کے چھوٹے یہ جانتے تھے کہ بڑے میاں ہانک رہے ہیں ، پھر بھی دل کھول کر ہنسنے کیلئے انہیں چھیڑدیتے تھے ۔ کچھ بوڑھے اپنی جوانی کے قصے سنانے لگتے اور بتاتے کہ کس طرح ایام جوانی میں وہ ہر جگہ چھا جاتے تھے ، اکھاڑے میں کوئی ان کے سامنے ٹکتا نہیں تھا۔ بڑے بڑے پہلوانوں کو ڈھیر کر دیتے تھے۔ وہ سنگا پور یا بر ما گئے تو وہاں کس طرح زیر و سے ہیر و بن گئے تھے ؟ وقت کے ساتھ چارپائی کی محفل بدلی ،اس سے حقہ غائب ہو گیا۔ بڑے چارپائی سنبھالتے ہی پان سے شغل فرمانے لگے۔ پان تھوکنے کے بعد چائے آجاتی ۔ خالص دودھ اور گڑ کی چائے کا دور چلتا ۔ اس میں بھی وہی بیل بھینس ، کھیتی کسانی، شہروں کے قصے ہوتے مگر سیاسی گفتگو اچھی خاصی ہونے لگی ۔ ان محفلوں میں چارپائی پر بیٹھنے کے آداب ہوتے تھے۔بڑے سر ہانے بیٹھتے تھے، چھو ٹے پائنتی سنبھالتے تھے۔ اس میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
یہ ماضی کی محفلیں ہوئیں اور ا ب حال دیکھئے ۔ اس زمانے میںبھی گاؤں کے نوجوان چارپائی پر اپنی محفل سجانے لگے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں یاروں کے ساتھ چارپائی پر بیٹھتے ہیں ، ہنستے بولتے ہیں ، ان کی محفل میں حقہ نہیں ہے ، ا س محفل کی جان گٹکھا ہے۔ چارپائی کے نیچے کی زمین اسی کی پیک سی رنگی رہتی ہے ۔ یہاں سگریٹ سلگتے ہیں ، بیڑی بھی جلائی جاتی ہے۔ تمباکو بھی کھا یا جاتا ہے۔ اس محفل میں انسانوں سے کم کم باتیں ہوتی ہیں ، زیادہ باتیں موبائل سے ہوتی ہیں۔ زبان کھلتی ہے تو سیاست ہی سیاست.. ریاست کی سیاست ، ملک کی سیاست اور دنیا کی سیاست۔ انتخابی موسم ہو تو گاؤںکی سیاست بھی۔کرکٹ آتا ہے ، والی بال آتا ہے، فلمیں آتی ہیں، بہت سے موضوعات آتے ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک آتے ہیں لیکن کوئی موضوع پوری طرح نہیں آپاتا۔ اس محفل میں یوٹیوب ، فیس بک اور وہاٹس ایپ کا’گیا ن ‘ بھی انڈیل دیا جاتا ہے۔ چارپائی پر بیٹھے نوجوان اسی میں تیرتے ہیں ، ہاتھ پیر مارتے ہیں ۔ پھرگٹکھے کی پیک ، بجھے ہو ئے سگریٹ اور بیڑیوں کا ڈھیر چھوڑ کر چلے تھے ۔پھر دوسرے دن وہ ٹھیک اسی طرح پرانی پیک پر ایک نئی پیک بناتے ہیں جیسے وہ اپنے دماغ میں پرانے ’سوشل میڈیا ئی گیان‘ پر ایک نیا ’گیان ‘ رکھتے ہیں۔
Dua Abbas
15-Feb-2022 06:47 AM
Good
Reply
Islahih_writer
28-Mar-2022 12:34 AM
شکریہ
Reply
fiza Tanvi
14-Feb-2022 09:56 PM
Bahut khoob islah writers
Reply
Islahih_writer
28-Mar-2022 12:34 AM
شکریہ،
Reply
Simran Bhagat
14-Feb-2022 08:07 PM
Wow amazing
Reply
Islahih_writer
28-Mar-2022 12:33 AM
شکریہ محترمہ
Reply